عورت کے جنازے کو غیر محرم کا کندھا دینا اور قبر میں اتارنا
بِسْـــــــــــــــــــــــمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
السَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
✍ تحریر : مسزانصاری
معاشرے میں جہلاء کے ہاں اس عقیدے پر بڑے زور شور سے عمل کیا جاتا ہے کہ جنازے کو
اجنبی ہاتھ نا لگائیں ، کندھوں پر نا اٹھائیں ، اور لحد میں بھی عورت کا محرم ہی
اتارے ۔ یہ مسئلہ جاہلوں میں محض خود ساختہ مشہور ہے دین محمدیﷺ سے ان عقائد کا
کوئی واسطہ نہیں ۔
مرد ہو یا عورت ، اسکے جنازے کے ساتھ چلنا اور اسے کاندھا دینا اس کا حق ہے ۔ اور
یہ شریعت یاد رہے کہ جنازوں کے ساتھ مرد چلتے ہیں جبکہ عورتوں کو اسکی ممانعت ہے ۔
جیسا کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ :
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ بْنُ عُقْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ خَالِدٍ
الْحَذَّاءِ ، عَنْ أُمِّ الْهُذَيْلِ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ رَضِيَ اللَّهُ
عَنْهَا , قَالَتْ : نُهِينَا عَنْ إتباع الجنائز وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا .
ہمیں ( عورتوں کو ) جنازے کے ساتھ چلنے سے منع کیا گیا مگر تاکید سے منع نہیں ہوا۔
صحیح بخاری / باب الجنائز / عورتوں کا جنازوں کے ساتھ جانا کیسا ہے / رقم الحدیث
:1278
ایک اور روایت میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ
"مسلمان کے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں، سلام کا جواب دینا، بیمار کی عیادت
کرنا، جنازوں کے پیچھے جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینک مارنے والے کو جواب
دینا۔"
(بخاری، مسلم، ابوداؤد)
اسی طرح ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:
"بیماروں کی عیادت کرو، جنازوں کے پیچھے جاؤ، یہ تمہیں آخرت یاد دلائیں
گے۔"
(مسند ابی یعلی، مسند احمد، بیہقی)
ان احادیث کے مطابق عورت کے جنازے کو کندھا دینے کے لیے محرم اور غیر محرم کی
تفریق ثابت نہیں ہوتی ، نیز کتاب وسنت کی کسی شرعئی نص سے یہ ثابت نہیں ہے کہ عورت
کو اس کا محرم کندھا دے یا نا محرم کندھا نا دے ، بلکہ کوئی بھی مسلمان مرد و عورت
کی میت کو کوئی بھی مرد کندھا دے سکتا ہے ۔
لہٰذا میت کو اٹھانے ، لے جانے اور قبر میں اتارنے کے لیے محرم کی شرط کا کوئی
ثبوت نہیں ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب صحیح البخاری میں باب حمل
الرجال الجنازة دون النساء میں بھی یہ سمجھایا ہے کہ جنازہ اٹھانا مردوں کا کام
ہے، عورتوں کا نہیں
صحیح بخاری الجنائز باب نمبر۔50
مزید اس مئوقف کی وضاحت اس سے ہوجاتی ہے کہ نا محرم آدمی عورت کی میت کو قبر میں
اتارسکتا ہے جیساکہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ
:ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر کے جنازے میں موجود تھے،آپ صلی اللہ
علیہ وسلم قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے،میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی
آنکھوں میں آنسو جاری تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا تم میں کوئی
ایسا آدمی ہے جس نے آج اپنی بیوی سے صحبت نہ کی ہو۔"حضرت ابوطلحہ رضی اللہ
تعالیٰ عنہ نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ہوں،آپ نے
فرمایا:"تم اس قبر میں اترو۔"چنانچہ حضرت ابوطلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ
قبر میں اترے اور انہیں لحد میں لٹایا۔
صحیح البخاری / الجنائز / رقم الحدیث : 1342
ثابت ہوا کہ جب نامحرم عورت کی میت کو قبر میں اتارسکتا ہے تو نا محرم مرد کا عورت
کی میت کو کندھا دینا بدرجہ اولیٰ درست ہوا ۔
- الخلاصہ : نا محرم مرد کا عورت کے جنازے کو کندھا دینے میں کوئی امر شرعئی مانع
نہیں ہے؟ میت کو کندھا دیتے ہوئے محرم اور غیرمحرم کی تفریق کرنا غیر شرعی ہے ۔
ALQURAN O HADITHS♥➤WITH MRS. ANSARI
اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاح مَا اسْتَطَعْتُ وَمَا تَوْفِیْقِیْ اِلَّا بِاللّٰہِ
ھٰذٙا مٙا عِنْدِی وٙاللہُ تٙعٙالیٰ اٙعْلٙمْ بِالصّٙوٙاب
وَالسَّــــــــلاَم عَلَيــْـــــــكُم وَرَحْمَــــــــــةُاللهِ وَبَرَكـَـــــــــاتُه
Post a Comment